اکثر پوچھےجانےوالے سوال اور جوابات

تھیلےسیمیا کی دو بڑی اقسام ہیں

تھیلےسیمیا مائنر اس میں مریض صحت مند زندگی گزار سکتا ہے، بعض اوقات ہلکی خون کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

تھیلیسیمیا میجر یہ سنگین قسم ہے، جس میں بچہ پیدائش کے چند مہینوں بعد شدید خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور زندگی بھر باقاعدہ خون کی منتقلی اور علاج  کی ضرورت پڑتی ہے۔

تھیلےسیمیا ایک وراثتی بیماری ہے جو اس وقت بچے کو لاحق ہوتی ہے جب دونوں والدین اس کے جین کے کیریئر ہوں۔ اگر ماں اور باپ دونوں تھیلےسیمیا مائنر کے کیریئر ہوں تو ان کے بچے کو تھیلےسیمیا میجر ہونے کا 25 فیصد امکان ہوتا ہے۔ اسی لیے شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ بہت ضروری ہے۔

تھیلےسیمیا کا مکمل علاج صرف Bone Marrow Transplant (BMT) کے ذریعے ممکن ہے، جو مہنگا اور پیچیدہ ہوتا ہے اور ہر مریض کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ زیادہ تر مریضوں کا علاج باقاعدہ خون کی منتقلی اور آئرن کو کم کرنے والی ادویات سے کیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔

تھیلےسیمیا مائنر والے افراد کو عموماً کوئی خاص علامات نہیں ہوتیں، لیکن انہیں شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ لازمی کروانا چاہیے تاکہ مستقبل میں تھیلےسیمیا میجر کی پیدائش سے بچا جا سکے۔ اس کے علاوہ، انہیں خون کی کمی یا تھکن محسوس ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

تھیلےسیمیا کی تشخیص ایک سادہ خون کے ٹیسٹ (CBC) اور Hemoglobin Electrophoresis کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ان ٹیسٹوں سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص تھیلےسیمیا مائنر کا کیریئر ہے یا تھیلےسیمیا میجر کا مریض۔ شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ کروانا بہت ضروری ہے۔

جی ہاں، شادی سے پہلے تھیلےسیمیا کا ٹیسٹ انتہائی ضروری ہے۔ اگر دونوں میاں بیوی تھیلےسیمیا کے کیریئر ہوں تو ان کے بچے میں تھیلےسیمیا میجر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایک سادہ خون کا ٹیسٹ نئی نسل کو اس موذی مرض سے بچا سکتا ہے۔

نہیں، تھیلےسیمیا میجر کا کوئی وقتی یا فوری علاج موجود نہیں ہے۔ مریض کو زندگی بھر مسلسل علاج کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ باقاعدہ خون کی منتقلی اور دوائیں۔ صرف Bone Marrow Transplant ایک ممکنہ مستقل علاج ہو سکتا ہے، لیکن یہ ہر مریض کے لیے ممکن نہیں۔

جی ہاں، تھیلےسیمیا کے مریض بچے اگر باقاعدہ علاج حاصل کر رہے ہوں تو وہ بالکل عام بچوں کی طرح اسکول جا سکتے ہیں، تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، اور اپنی پسند کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ان بچوں کو صرف تھوڑا زیادہ خیال اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے۔

تھیلےسیمیا مریض روزہ رکھ سکتے ہیں، ورزش اور سفر کر سکتے ہیں، لیکن یہ سب ڈاکٹر کے مشورے سے ہونا چاہیے۔ اگر مریض کی طبیعت یا ہیموگلوبن لیول بہتر ہو، تو وہ ان سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہر مریض کی حالت مختلف ہوتی ہے، اس لیے انفرادی مشورہ ضروری ہے۔

نہیں، تھیلےسیمیا چھوت کی بیماری نہیں ہے۔ یہ کسی کو خون، ہاتھ ملانے، سانس لینے یا کھانے پینے سے نہیں لگتی۔ یہ ایک موروثی (genetic) بیماری ہے جو بچے کو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب ماں اور باپ دونوں سے خراب جین منتقل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگ اسے متعدی بیماری سمجھ لیتے ہیں، جس سے سماجی بدنامی جنم لیتی ہے، اسی لیے آگاہی ضروری ہے۔

جی ہاں، اگر مناسب علاج نہ ہو تو تھیلےسیمیا میجر بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ خون کی کمی اور آئرن کی زیادتی کی وجہ سے بچے سستی، کمزور جسم، تعلیمی مشکلات اور بار بار بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اگر باقاعدہ خون کی منتقلی اور مناسب دیکھ بھال کی جائے تو بچے ایک معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔

جی ہاں، تھیلےسیمیا کے مریض شادی اور بچے پیدا کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مناسب طبی مشورہ اور منصوبہ بندی ضروری ہے۔ اگر دونوں میاں بیوی تھیلےسیمیا کے کیریئر ہوں تو بچے کو یہ مرض ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ جینیاتی مشاورت، شادی سے پہلے ٹیسٹنگ، یا IVF جیسی جدید طبی سہولیات اس خطرے کو کم کر سکتی ہیں۔

خوراک سے تھیلےسیمیا کا علاج ممکن نہیں، لیکن ایک متوازن اور غذائیت سے بھرپور خوراک مریض کی عمومی صحت کو بہتر بناتی ہے۔ چونکہ خون کی منتقلی سے آئرن کی زیادتی ہو جاتی ہے، اس لیے آئرن سے بھرپور غذا سے پرہیز کرنا چاہیے۔ وٹامن سی، کیلشیم اور فولک ایسڈ سے بھرپور غذا ہڈیوں اور خون کے خلیات کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ بہتر ہے کہ مریض کسی ماہر غذائی ماہر سے مشورہ کرے۔

تھیلےسیمیا مریض کے خاندان پر جذباتی اور مالی طور پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ مسلسل علاج، ہسپتال کے چکر اور مہنگی دوائیں خاندان کو ذہنی اور مالی دباؤ میں ڈال دیتی ہیں، خاص طور پر کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے۔ والدین اکثر احساس جرم اور بے بسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ادارے جیسے عمیر ثناء فاؤنڈیشن مدد فراہم کرتے ہیں تاکہ اس بوجھ کو کم کیا جا سکے۔

تھیلےسیمیا سے متعلق آگاہی ہی سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ چونکہ یہ موروثی بیماری ہے، اس لیے صرف تعلیم اور شعور سے ہی اس کو روکا جا سکتا ہے۔ شادی سے پہلے ٹیسٹنگ، جینیاتی مشورے، اور عوامی آگاہی مہم کے ذریعے اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ کئی ممالک نے آگاہی سے نئی نسل کو اس بیماری سے بچا لیا ہے۔

عمیر ثناء فاؤنڈیشن تھیلےسیمیا میجر کے مریضوں کو مفت، مسلسل علاج فراہم کر رہی ہے، جن میں خون کی منتقلی، آئرن کم کرنے کی دوائیں، اور تشخیص کی سہولت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فاؤنڈیشن آگاہی مہم، کیمپ، اور مشاورتی سیشن بھی منعقد کرتی ہے تاکہ عوام کو تھیلیسیمیا سے بچاؤ کے بارے میں شعور دیا جا سکے۔

جی ہاں، تھیلےسیمیا کی قبل از پیدائش تشخیص ممکن ہے۔ اس کے لیے ماں کے حمل کے دوران کچھ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جیسے کہ Chorionic Villus Sampling (CVS) یا Amniocentesis، جن کے ذریعے بچے کے جینز کو جانچا جاتا ہے۔ یہ ان والدین کے لیے مفید ہے جو دونوں کیریئر ہوں اور بچے میں تھیلےسیمیا کے امکانات جاننا چاہتے ہوں۔

اسکول اور کمیونٹیز تھیلےسیمیا کی آگاہی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسکولوں میں آگاہی سیشنز، خون کے عطیات کیمپ، اور تھیلےسیمیا ڈے جیسی سرگرمیاں منعقد کی جا سکتی ہیں۔ نصاب میں معلومات شامل کرنے سے بچوں اور نوجوانوں کو بروقت شعور ملتا ہے، جو معاشرتی تبدیلی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

اگر تھیلےسیمیا میجر کے بچے کو باقاعدہ علاج، خون کی منتقلی، اور آئرن چلیشن فراہم کی جائے تو وہ ایک بہتر اور مکمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ وقت پر تشخیص، جذباتی مدد، اور اداروں کا تعاون بچوں کو اعتماد اور وقار کے ساتھ جینے کا موقع دیتا ہے۔

Scroll to Top